Skip to content Skip to footer

عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں

 

 

ہمیں ایک ایسی ناراض نسل چاہئے

کشور ناہید

کولمبیا میںمقام بوگیٹو ایئر پورٹ۔ شلوار، قمیص میں مجھے دیکھااور ایک شاعر جسے میں جانتی نہیںتھی مگر اس نے مڑ کر بغیر تعارف کے، مجھے کہا ’’السلام و علیکم‘‘ میں نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ سلام کا جواب دیا اور کہا میں کشور ناہید، پاکستان سے، اس نے انگریزی میں جواب دیتے ہوئے خوشی سے ہاتھ ملایا، عراق سے۔ سعدی یوسف۔ یہ وہ شاعر تھا جو اپنے ملک سے جلا وطن تھا۔ اس کا انقلابی نظریہ، صدامحسین کو قطعی پسند نہ تھا۔ اس سے پہلے کہ صدام اس کو مروا دیتا، کہ عراق میں یونہی ہو رہا تھا، وہ عراق چھوڑ گیا۔سعدی یوسف اور بہت سے انقلابی شاعروں کے حالات زندگی اور ان کی تخلیقات کے تراجم، سلمیٰ اعوان نے کتابی شکل میں مرتب کیا ہے ، عنوان ہے’’عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘‘ کتاب کی فہرست دیکھی تو اس میں مجھے کچھ ناموں پر اچنبھا ہوا۔ اب بھلا انقلابی شاعروں اور ناول نگاروں کے درمیان ، ہمارا پیارا رومانوی شاعر، کیٹس کہاں سے آگیا۔ دراصل سلمیٰ اعوان کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو دیوانگی کے عالم میں ملکوں ملکوں کی سیر، کپڑے خریدنے کے لیے نہیں بلکہ نوادرات کو دیکھنے، وہاں کے ادیبوں کے انگریزی میں تراجم خریدنے اور پھر ان پر سیاسی اور ادبی منظر نامے سمیت، مضامین لکھنے، شاعر اور ناول نگاروں کے رشحات کے حوالے دے کر، آپ کی علمی پیاس کو بجھانا چاہتی ہے، اس کتاب میں میری پسند کے بہت سے لوگ ہیں۔ چونکہ میں نے ابتدا، سعدی یوسف کے نام سے کی ہے۔ اس لیے آئیے اس کی نظموں کے تراجم پڑھیں۔

وہ ملک جو ہمارا تھا ، وہ ختم ہوگیاہے۔ وہ ملک جسے ہم پسند نہیں کرتے،اس کا دعویٰ ہے کہ خون ابھی تک ہماری رگوں میں باقی ہے یہ عراق اب قبرستان کے کناروں پر ہی پہنچے گا ۔ یہ اپنے بیٹوں کی قبروں سے ملک بھر دے گا۔

سعدی یوسف صرف شاعر نہیں، نثر نگار، صحافی، پبلشر اور سیاسی کارکن کے طور پر کام کرتا رہا۔ عرب کے مشہور شہروں میں روایت ہے کہ ادب بیروت میں شائع ہوتا، بغداد میں پڑھا جاتا اور قاہرہ میں لکھا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے، مجھے اپنا گائوں چاہئے تمہارا نیویارک نہیں، تم مسلح سپاہی نینوا سے کیوں آئے، تم اتنی دور بصرہ میں کیا کرنے آئے ہو۔ اپنے اسمگل شدہ سگریٹ لے لو، ہمارے آلو ہمیں واپس کر دو۔

اگلا باب :۔ مونا عمیدی کے بارے میں ہے۔ شام کی حساس اور نئی سوچ کی حامل شاعرہ، جو امریکی ماں کی بیٹی تھی مگر اس نے دمشق نہیں چھوڑا اپنے ملک کو کھنڈر بنتے ہوئے، نظمیں لکھیں ’’آہ بغداد کے اسٹور بند ہیں، تریپولی کی گلیاں ویران ہیں۔ غزہ پر بمباری ، فلوجہ شعلوں میں نہا رہا ہے۔ دنیا سو رہی ہے اور عرب بحث میں الجھی ہوئی ہے کہ ورلڈ کپ میچوں میں کون جیتا ہے’’رہے نام اللہ کا‘‘۔

سلمیٰ اعوا ن نے مونا عمیدی سے ملاقات بھی کی۔لکھتی ہیں’’مجھے گھر کے دروازے پر خوش آمدید کہا۔ یہ جان کر کہ میں پاکستان سے ہوں ساری تھکن غائب، باتیں شروع ہوئیں، کولڈ ڈرنک، قہوہ اور کھجوریں، مگر مجھے تو کتابوں کی طلب تھی۔ مونا کی باتوں سے مجھے لگا پاکستانی دیہی اور شہری عورت کا جائزہ لے رہی ہیں۔ شام کی سیاست میں اگر حافظ الاسد نے سیکولر ہونے کے باوجود، اسلام کو نئے معنی پہناتے ہوئے اسے نئی تعریف دی تعدی یوسف کی طرح مونا عمیدی کو بھی نزار قبانی پسند تھا۔ اس کے گھر میں بھی نزار قبانی کی نظم کا ریکارڈ بج رہا تھا‘‘۔

مونا نے شام کی لوک کہانیاں سلسلہ وار لکھیں۔ سیاست پر بھی سنجیدگی سے بات کرتی رہیں، شام کے مستقبل کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے، اس کا گلا بھرا جاتا تھا۔ اس نے بتایا کہ سی آئی اے نے کیسے لوگوں کو تربیت دی، مگر آمرانہ اقتدار کی چکا چوند ، یہ سب نہیں سمجھ سکی۔ صبح کے منظر دھندلا دینے والے ہیں، دمشق کے لوگوں کو کس جرم کی پاداش میں سزا دی گئی ہے۔ میں کیسے بتائوں کہ دمشق کی رمضان کی مقدس ساعتیں۔ مگر رنگین لائٹوں اور قمقموں کے بغیر دمشق میرے خوبصورت شہر۔ زندگی تو یہاں غروب ہوتے سورج جیسی ہوگئی ہے۔

چونکہ دونوں شاعروں نے نزار قبانی کا ذکر کیا ہے۔ اس لیے آئیے، سلمیٰ اعوان کے اس کی شاعری کے تجمے پر بھی نظر ڈال لیں’’اک ایسی دنیا جہاں مطلق العنانی ہے۔ جہاں دانشوروں کو تختہ دار پر لٹکایا جاتا ہے۔ جہاں لکھنے والے بے دین اور مرتد سمجھے جاتے ہیں۔ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے بچوں کو یہ سمجھائوں کہ خدا نے انسانی روح اور جسم کو قتل کرنے سے منع کیا ہے‘‘۔

سلمیٰ نے لکھا کہ دو دن ہی میں اسے پتہ چل گیا کہ نزار قبانی ہر ٹیکسی، ہر گھر، ہر دکان، ہر لب پر مچل رہا ہے۔ نزار قبانی کا باپ شامی اور ماں ترکی۔ اس کا باپ فرانسیسی تسلط کے خلاف لڑنے والوں کی مدد بھی کرتا تھا۔ تبھی تو بیٹے نے لکھا ’’ہمارے دشمن ہماری سرحدوں میں رینگ کر نہیں آئے وہ تو چیونٹیوںکی طرح، ہماری کمزوریوں کے ذریعے آئے ہیں۔ اگر اتفاق اور اتحاد کو ہم دفن نہ کر چکے ہوتے اگر اتحاد باقی ہوتا تو دشمن ہمارے خون سے ہولی نہ کھیلتا اور نزار قبانی کی زندگی کی آخری نظم اس کا بھی ترجمہ سلمیٰ اعوان نے کیا ہے ’’اگر اسرائیلی بلڈوزروں کے نیچے آکر مرنے سے انکار کریں۔ اپنے لوگوں پر ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ وہ ہماری دھرتی ملیامیٹ کر رہے ہیں۔ ہماری تاریخ مٹا رہے ہیں۔ میں دہشت گردی کا حامی ہوں۔ اگر یہ مجھے۔ روس، رومانیہ، ہنگری اور پولینڈ سے آئے مہاجروں سے بچا سکے۔ یہ مہاجر فلسطین میں آن بسے ہیں اور ہمارے پر سوار ہیں ‘‘۔

میں نے تین شاعروں کا جو مجھے پسند ہیں، ان کا تعارف آپ سے کرایا ہے۔ میں محمود درویش کو بھول گئی۔کتاب لیں، آپ کی ملاقات 22 ایسے لکھنے والوں سے ہوگی جو دنیا بھر میں امر ہوئے۔ خوش رہو سلمیٰ!

Leave a comment

0.0/5