Skip to content Skip to footer

Secular Jinnah & Pakistan

ایک سیکولر سابقہ چیف جسٹس پاکستان

حرفِ راز۔۔۔۔ اوریا مقبول جان

 

آج سے گیارہ سال قبل جب یہ کتاب منظرِ عام پر آئی، تو اس میں درج حقائق نے لوگوں کو حیران و پریشان کر دیا۔ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کا ایک چیف جسٹس جب ایک بہت بڑے کمیشن کا سربراہ بنتا ہے تو وہ بددیانتی کرتے ہوئے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے گیارہ مئی 1947ء کو ’’رائٹرز‘‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ردوبدل کر کے اسے اسطرح درج کرتا ہےکہ قائداعظمؒ کے افکار سیکولر نظر آئیں۔یہ شخص پاکستان کا سب سے متنازعہ عدالتی سربراہ چیف جسٹس پاکستان محمد منیر ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے پاکستان میں فوجی آمریت پر عدالتی مہر تصدیق ثبت کرنے کا راستہ دکھایا تھا۔ اس نے 7 اکتوبر 1958ء کو سکندر مرزا کے مارشل لاء کے متعلق فیصلہ دیتے ہوئے لکھا تھا ’’اگر انقلاب کامیاب ہو جاتاہے اور اس کے تحت برسرِ اقتدار آنے والے اشخاص ، آبادی کو نئی حکومت کے مطابق چلنے پر آمادہ کر لیتے ہ یں تو انقلاب بوجہ خود قانون بنانے والی حقیقت بن جاتا ہے‘‘ ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے کے شریک ججوں میں ایم شہاب الدین  ، اےآر کارنیلس اور امیر الدین بھی شامل تھے۔ یہ فیصلہ 27 اکتوبر 1958ء کی صبح سنایا گیا، اور اب کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق طاقت کی بنیاد پر حکومت حاصل کرنا جائزہو چکا تھا اور سکندر مرزا کے پاس تھا ہی کیا ایک اعلیٰ سول نوکری، اصل طاقت تو فوج کے پاس تھی جس کے بال بوتے پر سکندر مرزانےمارشل لاء لگایا تھا،اس فیصلے کی روح پر عمل کرتے ہوئے ، رات کو فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کو ایوانِ صدارت سے نکال باہر کیا اور خوداس کرسی پر براجمان ہوگئے۔ اپنے اس متنازعہ ترین فیصلے سے کئی سال پہلے ہی جسٹس محمد منیر اپنے افکار کیوجہ سے سیکولر، لبرل قوتوں کی آنکھ کا تارا بن چکا تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا اہم شخص تھا جس نے قائداعظم ؒ کو سیکولر ثابت کرنا شروع کیا۔

مارچ 1953ء میں پنجاب میں ختم نبوت کی بھرپور تحریک شروع ہوئی۔ تحریک کا آغاز وزیراعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین کے اس فیصلے کے بعدہوا، جب اس نے علماء کی مجلسِ عمل کے ان مطالبات کو مسترد کر دیا جو انہوں نے21 جنوری 1953ء کو اسے پیش کیے تھے۔ مطالبے دو تھے (1) قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور (2) قادیانی وزیر خارجہ ظفر اللہ کو عہدے سے برطرف کیا جائے‘‘۔ 27 جنوری کو مطالبات مسترد کرتے ہوئے اہم علمائے کرام کوگرفتارکیا گیا جس کے نتیجے میں ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے ۔ ہنگامے اس قدر شدید تھے کہ لاہور شہر کی حد تک جنرل اعظم کی سربراہی میں مارشل لا ء لگادیا گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لاء تھا۔ 19 جون 1953ء کو گورنر پنجاب نے چیف جسٹس پاکستان محمد منیر اور جسٹس رستم کیانی کی سربراہی میں ہنگاموں کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن قائم کیا۔ اس دو رکنی کمیشن کی لکھی ہوئی رپورٹ 10 اپریل 1954ء کو سامنے آئی، جسے عرفِ عام میں ’’منیر رپورٹ‘‘ یا ’’منیر کیانی رپورٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ جہاں پاکستان کے سیکولر طبقات میں آج تک بہت مقبول ہے ، وہیں قادیانی بھی اسے بہت شوق سے تقسیم کرتے ہیں۔دونو ں کا گٹھ جوف اور آپس میں حسن سلوک آپ کو آج بھی نظر آتا ہوگا۔ میں جب 2015ء میں بھارت یاترا کے دوران اچانک غلام احمد کے قادیان جا نکلا، تو ان کے پبلشنک ہائوس میں یہ کتاب بہت بڑی تعداد میں نظر آئی۔ یوں تویہ انکوائری کمیشن تحریکِ ختم نبوت کے دوران ہونے والے ہنگاموں کی تحقیق کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن جسٹس منیر نے شرارتاً ، اسلام اور نظریہ پاکستان کے تصورات کو بھی زیرِ بحث لاناشروع کر دیا۔ وہ اس بحث سے اپنے مذموم مقاصد کا حصول چاہتا تھا  ۔نظریہ پاکستان اور تخلیق پاکستان کو اسلام سے علیحدہ ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا کہ جھوٹ اور دھوکے بازی سے بانی پاکستان قائداعظمؒ کو بھی سیکولر ثابت کیا جائے۔ ایسا مواد قائداعظم ؒ کے افکار و خیالات اور تقاریر میں تو کہیں ملتا نہیں تھا ۔ اس لیے جسٹس محمد منیر اور اس کے ساتھی جسٹس رستم کیانی نے قائداعظمؒ کے ’’رائٹرز‘‘ کو دیئے گئے انٹرویو میں ردوبدل کر کے اپنا مقصد پورا کیا۔

اس جھوٹ پر آج تک پردہ ہی پڑا رہتا، اگر مشہور ناول نگار سید فضل  قدر شدید تھے کہ لاہور شہر کی ح تک جاحمد کریم فضلی کی صاحبزادی سلینہ کریم اس پر تحقیق نہ کرتی۔ نوٹنگھم، برطانیہ کی رہنے والی اس عظیم خاتون نے رائٹرز کے دفاتر میں جا کر اصل ریکارڈ کو تلاش کیا اور اس بددیانتی کا پول کھولا۔ وہ کہتی ہے کہ ’’جسٹس منیر نے جب قائداعظم ؒ کا فقرہ تبدیل کیا تو جیسے کوئی چور ، اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے ویسے ہی اس سے انگریزی کی ایک ایسی غلطی ہوگئی جس سے مجھے شک گزرا کہ یہاں ضروربددیانتی ہوئی ہے۔ سلینہ کریم نے جب اصل فقروں اور جسٹس منیر کے بددیانتی والے فقروں کا موازنہ کیا تو جھوٹ سامنے آگیا۔ قائداعظم ؒ نے کہا تھا: “The Government of Pakistan can only be a Popular Representative democratic form of governemt.”پاکستان کی حکومت ایک مقبول، نمائندہ جمہوری حکومت ہوگی‘‘۔ اب جسٹس منیر کا بدلا ہوا بددیانت فقرہ ملاحظہ کریں۔The new State would be a Moern Democratic Statewith Sovereignty Resting in People.”نئی ریاست ایک جدید، جمہوری ریاست ہوگی جس کا اقتدارِ اعلیٰ عوام کے پاس ہوگا‘‘۔

قائداعظمؒ کے منہ میں ان الفاظ کو ڈالنا ’’اقتدارِ اعلیٰ عوام کے پاس ہوگا‘‘ دراصل قائداعظمؒ کی زبان سے قراردادِ مقاصد کے اس تصور کی تکذیب مقصود تھی، جس میں لکھا گیا تھا کہ ’’اقتدارِ اعلیٰ اللہ سبحان و تعالیٰ کے پاس ہے اور حکومت اس کی امین ہے‘‘۔ اس جھوٹ کو سلینہ کریم نے اپنے مضمون “Secular Jinnah: Munir’s Big Hoax Exposed”(سیکولر جناح: منیر کا بڑا فریب بے نقاب) میں 2005ء میں بے نقاب کر دیا۔ اس کے بعد وہ خاتون چین سے نہ بیٹھی اور اس نے ایسی لاتعداد بددیانتیوں کا پردہ چاک کر تے ہوئے 2010ء میں اپنی کتاب شائع کی ، جس کا نام تھا۔ “Secular Jinnah & Pakistan: What the Nation Doesn’t Know”(سیکولر جناح اور پاکستان: حقائق جو قوم نہیں جانتی)۔

آج، دس سال بعد اس کتاب کا اضافہ شدیہ ایڈیشن آیا ہے جسے یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (UMT)لاہور نے شائع کیا ہے۔ یہ ایک اضافہ شدہ ایڈیشن ہی نہیں بلکہ ایک مکمل علیحدہ کتاب ہے۔ پہلا ایڈیشن 317 صفحات پر مشتمل تھا جب کہ موجودہ ایڈیشن 322 صفحات کے اضافے کے ساتھ 639 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا دسواں باب “The Myths of Jinnah”(جناح کے بارے میں تراشی گئی خرافات) اور تیرھواں باب “Anecdotal Myths”(خرافاتی چٹکلی) ، دونوں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بارے میں تخلیق کیے گئے جھوٹے تصورات کا پول کھولتے ہیں۔ میں نے Mythsکا ترجمہ ’’خرافات‘‘ اس لیے کیا ہے  ، کیونکہ یہ لغت میں موجود ہے اور یہاں صحیح فٹ ہوتا ہے۔ ان خرافات میں سے مشتے از خروارے، ایک جھوٹ پر مبنی چٹکلہ یہاں لکھ رہا ہوں۔ یہ وہ الزام ہے جس پر خود قائداعظمؒ نے بڑے دُکھ سے ردّعمل ظاہر کیا تھا۔ قائداعظمؒ کے بارے میں یہ تصور عام کیا گیا ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں ایک سیکولر اور غیر مذہبی تھے۔ اس کا جواب قائداعظمؒ نے 1945ء میں انتہائی دکھ سے دیا۔allegation made against me and my personal life are tissues of falsehood which are tissues of falsehood which are sought to be broadcast in Hindu press.”  “A

’’وہ الزامات جو مجھ پر یا میری ذاتی پرلگائے جاتے ہیں، وہ دروغ گوئی کے ’’ٹشو‘‘ ہیں جنہیں ہندو پریس میں اچھالا جاتا ہے‘‘۔

کمال کی بات یہ  ہےکہ قائداعظمؒ پر سیکولر، لبرل اور کافرانہ طرزِ زندگی اپنانے کے جھوٹے الزامات قیامِ پاکستان سے پہلے ہندو اخبارات میں چھپتے تھے۔ لیکن آج یہ جھوٹے الزامات ، پاکستان کے سیکولر، لبرل میڈیا میں شائع ہوتے ہیں۔کس قدر حیران کن بات ہے کہ قائداعظم ؒ کو بدنام کرنے میں ہندوپریس اور سیکولر طبقات، دونوں کا مفاد کس قدر مشترک ہے۔

Leave a comment

0.0/5