Skip to content Skip to footer

نشاطِ غم کا شاعر ۔۔۔اشرف جاوید

’’نشاطِ غم‘‘ کا شاعر ۔۔۔اشرف جاوید

تحریر و تریب: ڈاکٹر اختر شمار

تیس برس سے زائد ہوتے ہیں جب اشرف جاوید سے ملاقات ہوئی۔ ان دنوں اشرف جاوید جنگ میں ملازمت کرتے تھے اور ساتھ ہی روزنامہ ’’امروز‘‘ کے میگزین کے لیے اہل قلم کے انٹرویو کیا کرتے تھے۔ ہم لاہور میں نئے نئے وارد ہوئے تھے۔ صبح روزنامہ آفتاب کے دفتر اور شام کو ٹی ہائوس جانا روزانہ کا معمول تھا۔ پاک ٹی ہائوس ان دنوں واقعتاً شاعروں ، ادیبوں سے آباد تھا۔ ایک جھلک ملاحظہ ہو۔ دروازے کے دائیں طرف، شیشے والی کھڑکی کے ساتھ لگے صوفوں پر، یونس ادیب، سلیم شاہد، حبیب جالب اور ان کے کچھ صحافی دوست بیٹھے دکھائی دیتے۔ اس سے آگے درمیان میں انتظار حسین، اکرام اللہ، زاہد ڈار، مستقل اور کبھی کبھی اس میز پر مسعود اشعر ، مظفر علی سید، ڈاکٹر سہیل احمد خان، جاوید شاہید یا شہزاد احمد بھی دکھائی دیتے۔قریب ہی ستون کے ساتھ والی نشست ہماری تھی۔ اطہر ناسک، احمد لطیف، بعد میں، باقی احمد پوری، منصور آفاق، افضل عاجز، جواز جعفری ، فرحت شاہ اور کبھی کبھی یہاں زاہد شاہ، آصف ہمایوں، لطیف ساحل بھی تشریف لاتے توہمارے پاس ہی بیٹھتے۔ سامنے والی دیوار والے صوفوں پر اسرارزیدی، یونس جاوید، نثاراکبر آبادی ، ایاغ عیسیٰ خیلوی، یونس علی دلشاد، غضنفر علی ندیم، اشفاق، رشید اور اردگرد کی نشستوں پر اکثر کنول فیروز، رشید مصباح، اظہر غوری اور کبھی کبھی خالد احمد، نجیب، اعجاز رضوی اور اشرف جاوید کے علاوہ بہت سے نئے پرانے، اہل قلم دکھائی دیتے تھے۔ اشرف جاوید حلقے کے اجلاس میں ہی زیاد تشریف لاتے۔ وہ ہماری منڈلی کے شاعر نہ تھے مگر وہ ہم سب سے محبت سے ملتے تھے۔ انہی دنوں ان کا پہلاشعری مجموعہ ’’نخل نوا‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس کی تعارفی تقریب ملتان میں بھی منعقد ہوئی تھی۔ شاید رضی الدین رضی، جو اس وقت ہمارے ساتھ، لاہور ہوا کرتا تھا، اشرف جاوید کے ساتھ ملتان گیا تھا۔ ایسے اشرف جاوید زیادہ تر خالد احمد کے حلقے میں نظر آتے تھے، جہاں تک اشرف کی شاعری کا تعلق ہے میں اسے 1980ء کی دہائی کے ان شعراء میں شمارکرتاہوں جو شہرت سے بے نیاز ، نہایت سنجیدگی سے اپنی فنی ریاضت جاری رکھتے ہیں۔ وہ ادبی رسائل جرائد میں بھی دکھائی دیتے ہیں اور ان کا قاری وہ خاموش طبقہ ہوتاہے۔ جو حقیقی شاعری کا رسیا ہوتاہے۔ اشرف جاوید کی غزل ایک وکھری ٹائپ کی غزل ہے۔ اس میں ’’مادر پدر‘‘ آزاد جدت کا ڈھونگ نہیں ملتا بلکہ وہ منفرد زمینوں میں ، اچھوتے مضامین سے شعر میں قدرت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اشرف جاوید کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔

 

تمام جھگڑے شجر کی سلامتی تک ہیں

ہوا تھمی کہ تھمی، آشیاں گرا کہ گرا

اس شعر میں ہماری سیاسی، تہذیبی شکست و ریخت پر گہرا طنز محسوس کیا جاسکتاہے۔ جس شاعری میں آپ کو اپنا ماحول دکھائی دے، وہ آپ کے رگ و پے میں اتر جاتی ہے۔ اس شعر میں بھی کچھ ایسی ہی چاشنی ہےکہ قاری کو حیران کر دیتی ہے۔

ایک اور شعر دیکھیں

اس نے دھو کر قمیص پھیلائی

رنگ دیوار سے نکل آئے

یہ دونوں اشعار، اشرف جاوید کے تازہشعری مجموعہ ’’نشاطِ غم‘‘ میں سے لیے گئے ہیں۔ جو حال ہی میں یو ایم ٹی ادارے کے زیر اہتمام نہایت دیدہ زیب گیٹ اَپ میں شائع کیا گی ہے۔

میری نظر میں اشرف جاوید اپنے عہد کا ایسا شاعر ہے جو مقبولیت کی چمک سے خیرہ ہوئے بغیر ، اپنے باطنی احساسات و جذبات کو اپنی فن چابکدستی سے، شاعری کا روپ دے رہا ہے۔ اس کی شاعری میں انسان کی تنہائی، کرب اور زندگی کی تلخیاں جا بجا بکھری نظر آتی ہیں۔ ’’نشاطِ غم‘‘ میں اس کا شعری سفر فنی و فکری پختگی کے ساتھ، نئی منزلیں سر کر رہاہے۔ پڑھیے اور اندازہ لگائیں کہ جدید غزل کس شاداب قریے سے گزر رہی ہے بغیر انتخاب کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

نجانے کیسی تپش ہے ندی کے سینے میں

جو سطحِ آب پہ چھالے سے پڑنے لگتے ہیں

توڑ ڈالے گی مجھے ضربِ انا

وست کشکول بڑھانے تک ہوں

اسے کہو کہ مجھے شکل ہی دکھا جائے

اسے کہو کہ مری سانس تو بحال کرے

ہوں نہ جائیں وہ دیوار سے مانوس کہیں

اسی ڈر سے وہ حوالات بدل دیتاہے

کھل کر رویا ہے تو چہرے پہ دھنک پھیل گئی

حسن کچھ اور نکھر آیا پریشانی سے

کوئی تلوار ضروری تو نہیں

زخم گفتار سے لگ جاتے ہیں

یہاں تو سارے اسی کی زبان بولتے ہیں

جو لہجہ ایک کا چکھا وہی ہزار کا

ہوگئے ہیں سب قوی میرے خلاف

خون میں چمکی بغاوت اور ہے

اشرف جاوید کا جواں سال بیٹا داغِ مفارقت دے گیا۔ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کرے اور لواحقین کو صبرجمیل سے نوازے مگر جوان بیٹے کی جدائی، باپ کے لیے پہاڑ سا غم ہے۔ اس صدمے کی ٹیسیں بھی اشرف جاوید کے اشعار میں محسوس کی جاسکتی ہے۔

اچک لیا ہے قضا نے نظر بچا کے اسے

حیات بھر کا ثمر تھا نظر نہیں آتا

میں اس کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں پاگلوں کی طرح

یہی کہیں پہ مگر تھا نظر نہیں آتا

مثال دیدہ یعقوب بجھ گئی آنکھیں

جمالِ نور نظر تھا نظر نہیں آتا

بچھڑ گیا ہے وہ مجھ سے بڑی سہولت سے

نہ کچھ کہا نہ سنا اور بات ختم ہوئی

ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے درست لکھا ہے:

اشرف جاوید کی غزل بیک وقت کلاسیکی اور جدید ذوق کے قارئین کو مطمئن کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ اس کی غزل اپنے معاصرین سے مختلف بھی ہے اور منفرد بھی اور نئی بھی۔ یہ مہارت برسوں عرصوں میں حاصل ہوتی ہے اور بہت سے لکھنے والے عمر بھر اس سے محروم رہتے ہیں۔