Skip to content Skip to footer

عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں

 

سلمیٰ اعوان ، رانا عبدالرحمن اور خانہ پُری

ظفر اقبال

 

سلمیٰ اعوان کے سفرنامے پڑھ پڑھ کر ہی ہم پھاوے ہو چلے تھے کہ اوپر سے انہوں نے ایک نیا گُل کھلا دیا ہے، اس کا ذکر بعد میں کریں گے، پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے عاشق بھی ہیں۔ وہ میری شاعری کی عاشق ہیں تو میں ان کی صحت مندی کا، جوان کی تحریروں سے بھی چھلکی بلکہ پھٹی پڑتی ہے۔ چنانچہ کسی محفل میں ٹکرا ہو جائے تو ہم بغل گیر ہو کر ملتے ہیں ۔ اور، جو لوگ سلمیٰ اعوان سے واقف ہیں وہ اندازہ لگاسکتے ہی کہ یہ بغل گیری سے کس قدر ’’بھرپور‘‘ ہوتی ہوگی۔ اس عمر میں عشق تو ویسے بھی مذاق لگتا ہے لیکن کسی کو اس پر اختیار بھی تو نہیں ہے۔ چنانچہ ’’دلّی والی گرل فرینڈ چھوڑ چھاڑ کے‘‘ یہ معاملہ کیا ہے۔ اس عمر کا عشق ویسے بھی ہومیو پیتھک قسم کا ہی ہوتا ہے یعنی اگر فائدہ نہیں دیتا تو نقصان بھی نہیں کرتا۔

ان کی کتاب کا عنوان ہے ’’عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘‘ جو کوئی ساڑھے تین سو صفحات کو محیط ہے، جسے پبلشنگ ہائوس یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور نے چھاپا اور قیمت 750 روپے رکھی ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے ’’ان اجنبی سرزمینوں کے نام جنہوں نے مجھے خوش آمدید کہا‘ اور اپنے لعل و گوہر سے میرا تعارف کروایا‘‘۔ پیش لفظ’’آپ کی توجہ کی طالب‘‘ کے عنوان سے مصنفہ نے خود لکھا ہے جن مشاہیر کے ذکر سے اس کتاب کے صفحے روشن ہیں، ان میں شاعر بھی ہیں، مفتی اور موسیقار بھی، نقاد اور فکشن رائٹر بھی۔ یوں سلمیٰ اعوان نے عالمی ادب کے سمندر کو ایک طرح سے کوزے میں بند کر دیا ہے۔ ان کا تعلق بیرونی دُنیا کے مختلف ملکوں سے ہے۔ان مصنفین کا تفصیلی تذکرہ اور ان کے فن اور زندگی پر اس کتاب میں بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔ یعنی اس ایک کتاب سے آپ دنیا بھر کے ادب اور ادیبوں سے خاصی حد تک روشناس ہو جاتے ہیں۔

ان مشاہیر کے نام بالترتیب یہ ہیں: نذار قبانی، مولانا عمیدی، بورس پیسٹرناک، الیگزینڈر سرگیووچ پشکن، لیوٹالسٹای اور صوفیہ ٹالسٹائی ، دوستووسکی اور اپنا دوستووسکی، مولانا جلال الدین رومی، یونس ایمرے، رابندر ناتھ ٹیگور، یرکرمیرتن، ابی سکارا، سعدی یوسف، ابونواس، جرڈروڈویل ، جان کیٹس، گوزیوکارووسی اور محمود درویش۔

کچھ ایسی ہی واردات بک ہوم لاہور والے ہمارے دوست رانا عبدالرحمن نے ڈالی ہے۔ انہوں نے نہ صرف متعدد مشاہیر کا ذکر کیا ہے بلکہ علیحدہ علیحدہ کتابوں میں ا ن کی اہم تصانیف میں سے منتخب تحریریں بھی شامل کی ہیں، جیسا کہ فرانزکافکا کے ناول قلعہ کا ترجمہ طارق عزیز سندھو نے کیا ہے ، فریڈرک میٹشے کی شہرہ آفاق تصنیف کا ترجمہ ریاض محمود انجم نے ماورائے خیروشر کے عنوان سے کیا ہے۔ والٹیئر کی کتاب کا ندید کا ترجمہ سجاد ظہیر نے کیا ہے، دانتے کی ڈیوائن کامیڈیکا ترجمہ جہنم کے نام سے مولانا عنایت اللہ دہلوی نے کیا ہے۔ جبکہ گوئنے کی کتاب فائوسٹ کا ترجمہ اسی عنوان سے ڈاکٹر سید عابد حسین نے کیاہے۔ ہر کتاب کی قیمت 600روپےرکھی گئی ہے جب کہ کاندیدکی قیمت 500 روپے ماورائے خیروشر کی 800 روپے اور فرانزکافکاکی کتاب قلعہ کی قیمت 500 روپے ہے۔

آپ یہ سب کتابیں پڑھ جائیںتو ایسے ہی ہے جیسے سارا عالمی ادب یا کم از کم اس کے بہترین نمونے آپ نے گھول کر پی لیے ہیں۔ قارئین کا وہ طبقہ جو انگریزی زبان سے آشنا نہیں ہے ، اس کے لیے یہ کتابیں ایک نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ زیریں جماعتوں کے طلبہ و طالبات کے لیے تو یہ ایک بیش بہا تحفہ ہے، ٹائٹل دیدہ زیب اور فکر انگیز ہیں اور گیٹ اپ اعلیٰ ۔ مترجمین نے خاص طور پر بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے اور ترجمہ بھی رواں اور سلیس ہے جس پر اصل کا گمان ہوتا ہے ان کتابوں کے تقابل سے ہم اپنے ادب اور ادیبوں کا موازنہ بآسانی کر سکتے ہیں اور یہ بھی کہ ہمارے ادب پر اگر دوسرے ممالک کے ادب کے اثراتہیں تو کہاںتک ہیں۔ فکشن میں بطور خاص مغربی ادیبوں نے ہمارے فکشن رائٹرز کو متاثر کیا ہے جس میں فرانزکا فکا کا نام بطور خاص لیا جاتا ہے ۔ اور اب آخر میں خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل؎

ایسا بھی نہیں درخورِ اظہار نہیں تھے

ہم حسبِ ضرورت بھی طلب گار نہیں تھے

دیتے نہیں کچھ وہ تو گلہ کیا کریں اس کا

جو دے دیا ہم اس کے بھی حقدار نہیں تھے

اُس راہ پہ جو ہم نے چُنی تھی تری جانب

بس دُھوپ تھی چاروں طرف، اشجار نہیں تھے

دیکھا کیے ہم تب بھی ترا راستہ اکثر

آنے کے ترے جب کوئی آثار نہیں تھے

یہ حُسنِ تغافل بھی توجہ سے نہیں کم

حالانکہ ہم اس کے بھی سزاوار نہیں تھے

دُنیانے بھی تادیر خبر لی نہ ہماری

کچھ ہم بھی ترے خواب سے بیدار نہیں تھے

آتے ہیں ترے پاس دوا ہو جنہیں مطلوب

کچھ وہ بھی چلے آئے جو بیمار نہیں تھے

ہم اس کو اسیری ہی سمجھتے ہیں کہ آخر

آزاد ہی کب تھے جو گرفتار نہیں تھے

ہم اپنے کنارے پہ ’’ظفر‘‘ خوش ہیں وگرنہ

جو رنگ تھے اُس پار وہ اس پار نہیں تھے

آج کا مقطع

محبت سربسر نقصان تھا میرا ظفر اب کے

میں اِس سے بچ بھی سکتا تھا ، مگر ہونے دیا میں نے

Leave a comment