نخریلی کتاب
امکان۔۔۔سعدیہ قریشی
کم و بیش ڈیڑھ ہفتے سے یہ کتاب میرے ساتھ ساتھ ہے اور میں اس کے سحر میں گم ہوں ۔ کہتے ہیں ناکہ انسانوں کی طرح کتابوں کے مزاج بھی الگ الگ ہوتے ہیں کچھ دوستی سے بھرپور۔ تو کچھ دور ہٹانے والی۔ کچھ کتابیں نصیحت کرتی ہیں تو کچھ اداس دل پر تسلی کے پھاہے رکھتی ہیں۔ کچھ کتابیں سیدھی سادھی شریف النفس سی جب بھی جس بھی ہنگام کھولو ۔ وہ اپنی تحریر میں موجود خزانوں سے آپ کو مالا مال کر دیں۔ اور کچھ کتابیں نخریلی بھی ہوتی ہیں۔ ممتاز لکھاری سلمیٰ اعوان کی یہ کتاب ’’عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘‘ ایک ایسی ہی نخریلی اور سحر آگہیںکتاب ہے۔ نخریلی اس لیے کہ آپ اس کتاب کو اپنے آس پاس بکھرے ہوئے ہنگام کے درمیان کھول کر پڑھیںگےتو یہ ہاتھ نہیں آئے گی۔ اگر آپ اس کتاب کو وٹس ایپ کے میسجز پڑھتے ہوئے یا فیس بک پر پوسٹوں کو لائک کرنے اور چیک کرنے کے درمیان پڑھیں گے تو یہ کتاب آپ سے ناراض ہو جائے گی یہ کتاب ایک خاصے کی چیزہے سو اس کو پڑھنے کے لیے اگر وقت نکالیں اور اس کا نخرہ برداشت کریں تو پھر یہ آپ کو ایک ایسے جہانِ حیرت میں لے جائے گی جہاں آپ کی ملاقات شام کی گلیوں میں نزار قبانی سے ہوگی، کبھی آپ خود کو دوستووسکی کے گھر میں موجود پائیں گے جہاں سماوار میںچائے دم پر رکھی ہے اور دوستووسکی رائٹنگ ٹیبل پر جھکاادب کے شاہکار تخلیق کرنے میں مصروف ہے۔ کبھی کیٹس سے باتیں ہوں گی تو کبھی اپنی دھرتی کے دکھ میں شعر کہنے والا محمود درویش آپ سے ملاقات کرے گا۔ یہ کارنامہ محترمہ سلمیٰ اعوان نے سر انجام دیا اور اس ایک کتاب میں ‘ دنیائے ادب کے چنیدہ ناغبہ روزگار تخلیق کاروں کو جمع کر دیا۔ اس کتاب کا انتساب ہے ’’اُن اجنبی سرزمینوں کے نام جنہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور اپنے لعل و گہر سے میرا تعارف کروایا‘‘ اس انتساب سے یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ محترمہ سلمیٰ اعوان نے دنیا کے مختلف خطوں اور مختلف زبانوں سے لکھنے والے ان عظیم تخلیق کاروں کو ان کی دھرتی، ان کی سرزمین پر جا کر سمجھنے، کھوجنے اور دریافت کرنے کی کوشش کی جس سرزمین کو ہوائوں نے اس تخلیق کے وجود کی مہک کو محسوس کیا۔جنسیاسی اور سماجی بدلتے ہوئے موسموں نے اس تخلیق کار کے شعور اور سوچ کی آبیاری کی سلمیٰ اعوان بنفسِ نفیس وہاں جا کر اس فضا میں تخلیق کار کے تخلیقی وجود کی مہک کو محسوس کرتی ہیں اور اس کو انتہائی خوب صورت انداز میں پڑھنے والوں تک پہنچاتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اردو ادب میں یہ اپنی نوعیت کی واحد اور انوکھی کتاب ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے اردو ادب کو سلمیٰ اعوان بھی ایک ہی نصیب ہوئیں۔دور دراز کے ملکوں کے سفر پر جانا۔ وہاں کی سیاسی سماجی ثقافتی زندگی کو سمجھنا اور پھر وہاں کی سماجی تبدیلیو ں کو تاریخ کے تناظر میں جاننا اور اسے بیان کرنا ان کی تحریرکا بنیادی وصف ہے۔ ان کا یہ سفر ’’تنہا‘‘ سے شروع ہوتا ہے جس میں سابقہ مشرقی پاکستان کے سانحے کا تذکرہ ناول کے پیرائے میں ہے۔ اور یاد رہے کہ یہ بھی کوئی ٹیبل سٹوری نہیں بلکہ ان دنوں وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں طالبہ کی حیثیت سے وہیں موجود تھیں۔ پھر وہ ہورنگ فلسطین، مصر میرا خواب، روس کی ایک جھلک، عراق اشک بارہیں ، ہم جیسے خوب صورت سفر نامے قاری کے سامنے لے کر آتی ہیں۔ انہی سرزمینوں کے سفر کے دوران انہوں نے وہاں کے عظیم تخلیق کاروں کو ایک نئے سرے سے دریافت کیا اس دل پذیر تجربے کو عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں، لکھ کر ایک شاہکار تخلیق کیا۔ چلیے ہم بھی سلمیٰ اعوان کے ساتھ سب سے پہلے دمشق کی گلیوں میں نزار قبانی سے ملتے ہیں۔
دنیائے عرب کی ایک باغی آواز۔ سفر کے پیرائے میں انقلابی اور رومانی جذبات کا آہنگ بانٹتی ہوئی۔ سلمیٰ اس شاعر کو کھوجنے نکلتی ہیں تو کیسے دمشق یونیورسٹی کے پروفیسر زکریا کا پتہ حاصل کرتی ہیں کہ اس نے نزار قبانی پر پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ کبھی وہ دمشق کے فٹ پاتھوں سے نزار قبانی کی عربی شاعری کا انگریزی ترجمہ ڈھونڈتی ہوئی نظر آتی ہیں عالمی طاقتوں کے جبر کو للکارنے والا شاعر ۔ فرسودہ روایات کے خلاف علم بلند کرتا ہوا نزار قبانی کہتا ہے۔
ہمیں ایک ایسی ناراض نسل چاہیے
جو تاریخ کی بنیادوں کو ہلاد ے
غلطیوں کو برداشت نہ کرے
پھر وہ ہماری ملاقات مونا عمیدی سے کرواتی ہیں۔ شام کی ایک حساس اور ہر دل عزیز شاعر جو اپنے وطن پر ٹوٹنے والے ظلم کو اپنے قلم سے بیان کرتی ہے۔ مونا عمیدی سے ملنے وہ ان کے گھر چلی جاتی ہیں۔ عربی قہوے اور کھجوروں کے ذائقے کے درمیان شام کے سیاسی اور سماجی حالات کی افسوس ناک صورت حال پر گفتگو ہوتی ہے اپنی عربی نظموں کو انگریزی میں ترجمہ کر کے شام کی ایک شاعرہ پاکستان سے آئی ہوئی تخلیق کار کو سنا رہی ہے۔
صبح کے منظر رلا دینے والے ہیں
دمشق کے لوگوں کو کس جرم کی پاداش میں سزادی گئی
دمشق میرے خوب صورت شہر
زندگی تو یہاں غروب ہوتے سورج جیسی ہوگئی ہے
سلمیٰ اعوان ہمیں روس کے قومی شاعر الیگزینر شیکسن سے ملوانے کے لیے اس تاریخی اپارٹمنٹ تک لے جاتیہ یں جہاں اس بے بدل شاعر نے اپنی زندگی کا آخری ایک سال گزارا۔ ایک طرف کتابوں کا ڈھیر ہے۔ ایس ٹرے دھری ہے۔ کرسی کا رُخ یوں ٹیڑھا ہے جیسے ابھی ابھی شیکسن لکھتے ہوئے ذرا سا باہر کو گیاہو۔ قاری بھی اس ماحول کو محسوس کرنے لگتاہے اور خود کو اسی کا حصہ سمجھتا ہے۔ ماسکو جا کر کوئی دوستووسکی کو کیسے بھول سکتاہے۔ سلمیٰ اعوان ہمیں اس شہرہ آفاق ناول نگار کے تاریخی گھر میں لے کر جاتی ہیں جو اب میوزیم بنا دیاگیا یہ وہ گھر جہاں یہ عظیم تخلیق کار کچھ عرصہ کرایہ دار کی حیثیت سے رہا۔ دیواروں پر دوستووسکی کی پسندیدہ پینٹنگز آویزاں ہیں۔ اس کے زیر استعمال چھتریاں ہیٹ ا ور صندوق رکھے ہیں اپنی بیوی اینادوستووسکی کے نام خطوط بھی یہاں محفوظ ہیں۔ ڈرائنگ روم میں اس کے زیر استعمال پیتل کا سمادار اور چائے دانیاں۔ اینا دوستووسکی اپنی یادداشتوں میں دوستووسکی کی چائے کے ساتھ خصوصی لگائو کا تذکرہ اس طرح کرتی ہے۔
’’اچھی چائے اس کی کمزوری تھی۔ چائے بنانے کا خصوصی اہتمام ہوتا۔ سب سے پہلے وہ اُبلتے ہوئے پانی سے کیتلی کو کھنگالتا اس کا چمچ مخصوص تھا جسے بچے پاپا کا چمچ کہتے‘‘یوں قاری تک دوستووسکی کی گھریلو زندگی کی ایک جھلک بھی پہنچتی ہے۔
ٹیگور سے ملاقات کروانے کے لیے سلمیٰ اعوان ہمیں 1969ء کی ڈھاکہ یونیورسٹی میں لے جاتی ہے جہاں رم جھم بارش کی نرم پھوار پڑ رہی ہے اور پوکھر کنارے سہیلیوں کے جھرمٹ میں مغربی پاکستان سے آتی ہوئی ایک سانولی سلونی لڑکی ٹیگور کے سُریلے گیتوں کی اسیر ہو جاتی ہے ۔ وہ روم کی یاترا پر جاتیں تو ہمیں گھنگریالے بالوں ستواں ناک والے رومانی شاعر کیٹس سے ملواتی ہیں۔ A Thing of beauty is joy for ever.اے تھنگ آف بیوٹی از جوائے فار ایوورو والا لازال فقرہ کہنے والا جوا ں مرگ شاعر کیٹس۔ اور اس کی شاعری مصنفہ کے لیے ایک ایسی محبت ہے جس کی وہ زمانوں سے اسیر ہیں اس لیے وہ اس میوزیم کو دیکھنے پہنچ جاتی ہیں جہاں اس بے مثل شاعر سے وابستہ چیزیں ، فینی کو لکھے ہوئے خطوط یادوں کی صورت بکھرے پڑے ہیں۔ اپنی آنکھوں میں آنسو لیے وہ اس کمرے کے سامنے خاموشی سے کھڑی رہتی ہیں جس کے باہر پیتل کی پلیٹ پر لکھا ہے۔ اس کمرے میں 23 فروری 1821ء کو جان کیٹس کی وفات ہوئی‘‘۔
اس کتاب میں جا بجا مصنفہ کے ایسے مشاہدے اور تجربے بکھرے پڑے ہیں جو مختلف زبانوں اور خطوں سے تعلق رکھنے والے عہد ساز تخلیق کاروں کے حوالے سے سلمیٰ اعوان کو پیش آئے۔ احساس میں گندھی ہوئی خوب صورت نثر کے ذریعے وہ اپنے قاری کو بھی ان تجربات میں شریک کر لیتی ہیں۔
’’عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘‘ کی صورت میں سلمیٰ اعوان کا یہ کارنامہ بلاشبہ سراہنے اور توجہ حاصل کرنے کے قابل ہے مجھے فخر ہے کہ اردو ادب کو سلمیٰ اعوان جیسی لکھاری ملی دوسرے خطوں پر جنم لینے والے عظیم ادب کا تخلیقی شعور رکھتی ہیں۔ ان کے فنی شہ پاروں کو ا ن کے سماجی اور سیاسی تناظر میں سمجھنے کے لیے دور دیسوں کے سفر کو نکلتی ہیں تو پھر ہی اس تخریلی کتاب جیسی خاصے کی چیز وجودمیں آتی ہے۔