Skip to content Skip to footer

نشاطِ غم ۔۔۔ ایک آفاقی اور معروضی علامت

نشاطِ غم ۔۔۔ ایک آفاقی اور معروضی علامت

معروف شاعر و ادیب اور نقاد حمزہ ہاشمی سوز کا اشرف جاوید کی کتاب پر اظہارِ خیال

غم، اُردوہ شاعری کا ایک بنیادی موضوع رہا ہے، مگر اس کیفیت میں بھی تنوع ہے، یعنی غم کو صرف ایک کیفیت تک محدود کرنا نامناسب ہو گا۔ غم کے مختلف زاویے ہیں، مختلف تھر تھراہٹیں ہیں، مختلف پہلو ہیں۔ وہ غمِ جاناں ہو یا غمِ دوراں ہر غم اپنی اپنی جگہ ایک خاص افادیت کا حامل ہے۔ وہ غم میر کا ہو، سودا یا ہو یا غالب کا۔۔۔ جب انسان کو اس کی لت پڑ جائے تو غم اس کی طبیعت کا جز و لا ینفک بن جاتا ہے ، بل کہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کے باطن کی خوراک بن جاتا ہے، غالب سے پہلے عموما یہ تاثر لیا جاتا رہا کہ غم آدمی کو کھوکھلا کر دیتا ہے، آدمی خانقاہوں میں پڑا ہوا درویش سا معلوم ہونے لگتا ہے، دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو جاتا ہے، لیکن غالب نے اس فلسفے کی نفی کی ہے اور اس اس مصرعے رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج ‘یا’ گر عشق بنودے و غم عشق نبودے۔۔۔۔ اینہا سخن نغز کہ کفتے کہ شنودے؛ سے یہ بات متر شح ہوئی کہ غم انسان کا ساتھی  ہے بل کہ یہ حدیث رسول بھی ہے کہ غم میرا ساتھی ہے، سو نشاطِ غم بھی اسی کے مصداق ہے۔ اشرف جاوید نے اس فلسفے کو اپنی شاعرانہ طبعیت  میں کھپا رکھا ہے وہ غم کو اپنی توانائی بناتے ہیں اور اس سے پھلنے پھولنے اور خط اُٹھانے کا خوب ہنر جانتے ہیں۔

                   کھل کے رویا ہے تو چہرے پہ دھنک پھیل گئی

                   حسن   کچھ   اور نکھر آیا پریشانی سے

نشاطِ غم کا، اگر عمیق مطالعہ کیا جائے تو یہ بات آشکارا ہو جاتی ہے کہ شاعری اب ایک نئی فضا میں سانس لے رہی ہے۔ سابقہ و کہنہ فلسفوں کے شکنجوں نے نکل کر وہ پنپ بھی رہی ہے اور نئے لکھنے والوں کو نئی شعری اور فکری حیات کی طرف مدعو بھی کررہی ہے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اس کی دور روایت سے بھی کتنی نظر آرہی ہے جو میرے نزدیک خوش آیندہ بات نہیں ہے، بل کہ حکایت سوگوار، کا درجہ رکھتی ہے۔ بایں ہمہ اب بھی آفاق سخن پر کچھ ایسی قندیلیں جگمگا رہی ہیں، جنھوں نے روایت کی سر زمین سے تعلق نہیں توڑا انھیں میں محترم اشرف جاوید کا نام نمایاں ہے۔ جو صحبتِ میر میں اُٹھتے بیٹھتے ہیں اور داغ جیسے اساتذہ سے استفادہ کرتےہیں، ندیم سی غزلیں کہنے کی خواہش کرتے ہیں اور غالب جیسے اسلوبِ بیان کی حمایت کرتے ہیں۔

نشاطِ غم جدید عہد کے جدید تر شاعر کے اظہار کا مجموعہ کلام ہے۔ اشرف جاوید نے غزل میں جو طرزاپنائی ہے اور جو طرح ڈالی ہے، ہم اُسے مستقبل گیر لہجہ قرار دے سکتے ہیں۔ اب ذرا نشاطِ غم کی غزلوں پر غائر نظر ڈالتے ہیں۔ جو میرا خیال ہے ، توجہ طلب بھی ہیں اور نفسیات کی باریکیوں سے جانچے جانے کی محتاج بھی ۔ کتاب کی پہلی غزل کے چند اشعار پر، اگر بات کریں جیسے یہ شعر ہے:

                   جمال صبح سے بینائی ریزہ ریزہ ہوئی

                   اندھیرا لایا ہے یہاں راستہ دکھا کے مجھے

          اسی شعر کو لے لیجیے تو اندھیرے اجالے کے فلسفوں کی نئی گرہیں اور پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ عموما تو یہی سمجھا جاتا رہا   کہ روشنی راہ دکھاتی ہے، مگر جب اس تصویر کو الٹ کر دیکھا تو سارا منظر ہی بدل گیا۔ یعنی جستجو اور ذوق آگاہی نے جہالت اور اندھیرے کے بطن سے جنم لیا، اگر جہالت نہ ہوتی تو روشنی کا سراغ کیسے ملتا؟ سو یہ سہرا بھی اندھیرے کے سر جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ فلسفہ زرتشت کےہاں نور اور ظلمت کے فلسفے سے بھی بہت متشابہت رکھتا ہے۔ جہاں یہ کہا گیا ہے کہ شر اور خیر دو برسر پیکار قوتیں ہیں۔ شر کی شناخت خیرسے  اور خیر کی شناخت سر سے ہوتی ہے۔ گویا دونوں ایک دوسرے کے واسطے complementary  ہیں اور یہی حسنِ تقسیم کو پہلو خدا تعالیٰ نے کنج سماوات سے لے کر ہر ذرہ ارض میں رکھ دیا ہے تاکہ انسان ان دونوں متوازی، مگر برسرِ پیکار قوتوں کو پہچان کر خدا کو تلاش کرے۔

          اسی طرح جب پہلی غزل سے دوسری غزل کی طرف بڑھا جائے تو یک لخت یہ شعر حصار میں  لے لیتا ہے:

                   سب آشنا ہیں دانے سے، پانی سے، چال سے

                   ہاتھ آئیں کے پرندے کسی اور چال سے

          ایک قدرتی امر ہے پرندوں کو قید کرنے کے لیے جانے کیا کیا جتن کیے جاتے رہے۔ کبھی پانی سے کبھی جال سے ، کبھی دانے دنکے سے وغیرہ وغیرہ ، مگر جب پرندہ ان تمام چالوں سے واقف ہو گیا، تو صیاد کے لیے لازم ہو گیا کہ اب وہ کچھ اور ترکبیب سوجھے ورنہ پیہم وہی حربے اور جتن کا استعمال بے سود ہو گا۔ لہٰذا اب صیاد پرندوں کو اور چال سے زیرِ دام کرنا چاہتا ہے۔ یہ نہاتیت خوب صورت اور اچھوتا موضوع ہے۔ سماجی زندگی پر، اگر اس شعر کا فلسفہ پرکھیں تو یہ بات معلوم ہو تی ہے کہ محب ہر طرح سے مجبوب کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، مگر وہ محبت پر رضا مند نہیں ہوتا اور تمام دلیلیں رائیگاں جاتی ہیں ، تو ایسے میں اب محب کے پلے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اور کون سا ایسا حربہ استعمال کرے، جس سے وہ قائل ہو جائے اور زیر دام بھی آ جائے۔ یہ شعر ایک اور سطح پر ہمارے سیاسی رویوں کا غماز بھی نظر آتا ہے کہ مکار ، فریبی اور دغا باز سیاست دان کس چال بازی  اور مکاری  کے ساتھ مظلوم اور معصوم عوام کو اپنے چال میں پھنسانے کے لیے نئے نئے منصوبے بناتے رہتے ہیں اور بڑی حد اس میں کامیابی بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس شعر کی خوبی یہ ہے کہ اس بہ یک وقت کئی رخوں اور کئی حوالوں سے سوچا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور شعر دیکھیے:

                   بیٹھ جاتا ہے کہیں گھات لگا کر مجھ میں

                   ہدف و نقش و مقامات بدل دیتا ہے

          یقیناً اشرف جاوید چیزوں کو محض ایک رخ سے نہیں بل کہ کئی زاوئیوں سے دیکھتے ہیں او رانھیں اظہار میں برتنے کی پیہم سعی کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اصل قدروقیمت انسانی جذبوں ، محبت اور اقدار کی ہے، اس لیے وہ حسن زناں سے بھی والہانہ تخیلاتی وابستگی رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ کا کیا مطلب ہے۔ وجودزن کیوں ضروری ہے اور انسان چاہے جوانی کی دہلیز پر انگڑائیاں لے رہا ہو یا بڑھاپے کی حالتِ زار میں ہو بہر حال وہ مکمل جیتا جاگتا انسان محبت اور جمالیات سے بنتا ہے اور عشق ایسا جوہر ہے جوآدمی کی کیمیا تبدیل کر کے اُسے انسان کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ بے شک اس جذبے کی کمی انسان کو ہمیشہ ادھورا اور نامکمل رکھتی ہے، اسی لیے تو وہ اس جذبے کی تلاش میں زندگی گزار دیتا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں:

                   خاک میں جوہر امکان بھی ہو سکتا ہے

                   عشق سے آدمی انسان بھی ہو سکتا ہے۔

          انگریزی زبان کا ایک مشہور پلے رائیٹر اور شاعرO Henry کہتا ہے، جس شخص کی زندگی کے ایک سال میں دو موسم گزرے  ) ہجر اور وصال( اور اس نے ایک موسم سے بھی سبق نہ سیکھا تو وہ جان لے کہ وہ بے حسی کے تعفن میں لپٹا ہوا چلتا پھرتا مردہ ہے”۔ لیکن اشرف جاوید کے ہاں ان دونوں موسموں کا عمیق تجربہ موجود ہے اور وہ انھیں ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں

                   دل سمجھتا ہے کہ میں اس کو بھلا بیٹھا ہوں

                   بیٹھے بیٹھے ہی    نیا روگ  لگا بیٹھا ہوں

                   اس کے کھو جانے کا خدشہ سا لگا رہتا ہے

                   جیسے بیمار کو دھڑکا سا لگا رہگا ہے

                   ہیں فاصلے بھی سلامت پر ایک ایک قدم

                   ہم ایک دوجے کی جانب اُٹھا کے دیکھتے ہیں

                   خود بدلتا نہیں، حالات بدل دیتا ہے

                   باتوں باتوں میں وہ ہر بات بدل دیتا ہے

                   وہ بھلا مجھ سے جدا ہو کے جیسے گا کیسے؟

                   اس کی مٹی مری مٹی میں ملا دی گئی ہے

نشاطِ غم محض غم ہی سے عبارت نہیں، یہاں سے وہاں تک چلتی ہوئی احساسات اور جذبات کی بہتی ہوئی جوئے رواں ہے، جو جذب و گریز کی کیفیتوں سے بے کنار بھی ہے اور ہمکنار بھی۔ اصل وعدوں کی داستانوں سے معمور حدیثِ دلبراں بھی ہے اور حکایت شہر آزروگاں بھی۔۔ لیکن یہیں پر اشرف جاوید کا فنی سفر موقوف نہیں وہ جہاں و جود زن سے جمالیاتی عناصر کو خود میں معروضی طور پر بیدار کرتے ہیں، وہیں پر وہ اپنے حاضر وموجود سے بھی بیزار نہیں ہوتے۔

وہ معاشرتی حالات پر نوحہ کناں بھی ہیں اور گریہ کنا ں بھی۔۔ وہ اس طرح موہوم آہ کھینچتے ہیں، جو آفاق کے سینے پر جا کر موجزن ہو جاتی ہے اور ہیں کہیں ان کے ہاں انقلاب کی شورش بھی سنائی دیتی ہے اور وہ حالات اور موسم کی تبدیلی کے خواہش مند نہیں، اس کے لیے کوشاں بھی دکھائی دیتے ہیں، مگر ایسے بھی نہیں کہ ان کی شاعری محض سیاسی ہنگامہ آرائیوں کی بھینٹ چڑھ جائے۔ وہ اس چیز میں بھی توازن کا خاص خیال رکھتے ہیں، وہ معاشرہ شعرا  کے ہاں ذرا خال خال ہی پایا جاتا ہے، مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

                   ہمارا قتل بھی واجب ہوا زمانے پر

                   کہ ہم بھی موجب توہیں سر زمیں ہوئے ہیں

                   نہ جیت ہاتھ لگی ہے ، نہ مات ختم ہوئی

                   انا کی جنگ میں آخر حیات ختم ہوئی

لیکن ایک مقام پر آ کر اشرف جاوید کے ہاں ہلکا سا فکر تضاد بھی موجود ہے جو ان اشعار سے مترشح ہوتا ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ تضاد کس طرح شعر کا حسن بن پاتا ہے، تہ ان دو اشعار کی قرآت سے یہ فکری مغالطہ بھی حل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ذیل کے دو اشعار  بھی یہی تضاد دور آیا ، لیکن دونوں اشعار کی وقتی ضرورت مختلف ہے، کبھی گھی ٹیڑی انگلیوں سے بھی نکالنا پڑ جاتا ہے اور کبھی لمحہ لمحہ اظہار آنے سے پہلے ہی کوئی خواہش تکمیل کی حدوں کو چھو لیتی ہے اور اسی عمل میں معاشرتی حسن پنہاں ہے، آپ اشعار پڑھے اور حظ اُٹھائیے:

                   کب تلک تیرے تساط میں رہیں، جبر سہیں

                   کوئی دن جنگ کا اعلان بھی ہو سکتا ہے

                   تو دوسری طرف وہ یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں:

                   عشق پیشہ ہیں بہت پیار سے بدلیں گے سماج

                   یہ جہاں کارِ ستم سے نہیں بدلا جاتا

          اس مقام پر قاری کو سوچنا پڑے گا کہ سماجی تبدیلی یا انقلاب کی کون سے روش اختیار کی جائے۔۔۔ کیوں کہ انقلاب کے دو عناصر ہیں ۱۔ تخریب  ۲۔ تعمیر ہیں۔ اگرچہ تخریب میں ہی تعمیر کا عمل پوشیدہ رکھ دیا گیا ہے۔ پھر بھی اس غیر معمولی فرق کو سمجھنے کی اشد ضرور ت ہے۔

ایک نیا نظام قائم کرنے کے لیے سابقہ نظام کی عمارت کو منہدم کرنا اولین جزوانقلاب ہے۔ اس کے بعد تعمیر کا مرحلہ شروع ہوتا ہے، یعنی پہلے نفرت، غیض اورتباہی ہے پھر پیار ، نسبت اور محبت سے سماج کی تشکیل نو ہوتی ہے، اگر کارل مارکس کی فکر پر روشنی  ڈالی جائے تو اقبال نےمارکس کی فکری جد و جہد کو ان دومصرعوں میں بیان کر دیا ہے:

                   زندگانی سوختن یا ساختن

                   در گلے راشکم با انداختن

یعنی مارکسی فکر میں سوختن ساختن تخریب کا عنصر تو موجود ہے لیکن تعمیر کے مرحلے کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے، جس کے بغیر انقلاب کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، اس لیے اقبال نے مارکس کے لیے پیغمبربے، جبریل، مسیح بے صلیب اور کلیم  بے تجلی کی اصطلاحات کا بے لاگ استعمال کیا۔ سواس مقام پر قاری، اشرف جاوید سے یہ سوال کرتا نظر آ رہا ہے کہ سماج، کوئی دن جنگ کے اعلان سے بدلا جائے یا پھر پیار سے، کیوں کہ بہر حال دونوں انقلاب کے ہی مراحل ہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ اشرف جاوید نے جس سلیقے اور ہنر مندی کے ساتھ غزل کا اظہار کا نیا پیر ہن دیا ہے ، وہ قابل تحسین بھی اور لائق تقلید بھی۔

مجموعی طور پر اشرف جاوید کی غزل نئے لکھنے والوں کے لیے مشعل صد راہ گزار ہے۔ نشاطِ غم کی غزل میں نئے اور اچھوتے تجربات شامل ہیں۔ خصوصاً جو اساتذہ کی زمینوں میں تجربات ہیں، وہ اس بات کی نشان دہی کر رہے ہیں کہ اشرف جاوید کی فنی قامت اساتذہ کی چھتر چھاؤں سے جا ملتی ہے۔ وہ اس طرز کی غزلیں کہہ کر نہ صرف روایت کو جلا دے رہے ہیں، بل کہ غزل کی جدت طرازیوں کے بھی نئے سے نئے پہلو اجاگر کر رہے ہیں۔ یقیناً یہ ہمیشہ زندہ رہنے والی غزلیں ہیں۔

ماہر القادری کہا کرتے تھے، نعت اور حمد شاعری پر قرض ہے ، سو اشرف جاوید نے یہ قرض بھی احسن طریقے سے اتار ا ہے، جو ان کے کلام پر واجب الادا تھا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اشرف جاوید کا دل ایمان کی حرارتوں سے لبریز ہے، ان کا وجدان رسالت تاب کی روشنی سے مستفیر ہے اور ان کی نگاہ رواں دواں غمِ حسین سے پر نم ہے۔ آخر میں ، میں نشاطِ غم سے حمد، نعت اور سلام سے اشعار درج کرتا ہوں، آپ انھیں پڑھیے اورحظہ اُٹھائیے:

                             )حمد(

                   میری مشکل بڑی ہے تو کیا اے خدا

                   تیری رحمت، مگر ہے سوا، اے خدا

                   میں کب خود سے لکھ پاتا ہوں

                   ہاتھ پکڑ کر وہ لکھوائے

                             )نعت(

                   نبی کا عشق ملا، نعت تک رسائی ہوئی

                   تمام عمر کا حاصل یہی کمائی ہوئی

                   خاک نعلینِ مبارک سے اٹھا میرا خمیر

                   آپ کے قدموں میں رہ کر زندگی پاتا ہوں میں

                             )مرثیہ امام(

                   ہر آنے والا زمانہ تیرازمانہ ہے

                   تری طرح ہوا جاتا ہے جادواں ترا غم

Leave a comment

0.0/5