Skip to content Skip to footer

نشاطِ غم ۔۔۔ نئی غزل، نیا اسلوب

نشاطِ غم ۔۔۔ نئی غزل، نیا اسلوب

اشرف جاوید نے اظہارکے باطن میں یعنی غزل کے لہجے میں ایک تاثیر بھردی ہے

 

گزشتہ ربع صدی سے غزل کی مخالفت میں ہمارے ناقدین نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھاہے ان کا خیال ہے کہ غزل کا ایک شعر یا پھر ایک شعر کے دو مصرعے کسی بڑے مضمون کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ بعض لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ غزل اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہے کوئی دنوں میں اس کا چل چلائوہے کیوں کہ اب نظم کا زمانہ ہے لوگ اپنی بات اور اس کے اظہار کے لیے نظم کے جامے کو مناسب پاتے ہیں۔ ان باتوں سے اگر فی الوقت صرفِ نگاہ بھی کر لیا جائے تو کوئی بات نہیں۔ لیکن دیکھنے والی آنکھ اور پڑھنے والے لوگ یقیناً یہ جانتے ہیں کہ کسی بھی صنف سخن کے مقابلے میں صرف غزل ہی ایک ایسی صنف ہے جس نے ولی سے لے کر میر تک ار پھر غالب سے لے کر فیض اور ندیم تک اور پھر منیر سے لے کر فراز اور ظفر اقبال تک اپنا سفر جاری و ساری رکھا ہے اور ان تمام مخالف باتوں ان ممکنہ رکاوٹوں اور طے شدہ حد بندیوں کے باوجود غزل کے پیرائے میں شعرا حضرات نے ایسی ایسی باتیں کی ہیں اور ایسا ایسا خوبصورت شعر نکالاہے کہ طویل سے طویل نظم بھی اس کے سامنے پانی بھرتی دکھائی دیتی ہے۔ غزل کا دامن کسی صورت بھی تنگ نہیں ہے اور اس میں اظہار پانے والے خیالات جذبات اور افکار کسی سطح پر بھی ابلاغ کی حدود سے ماوریٰ نہیں ہوتے ، غزل میں کہی ہوئی بات دل سے نکلتی ہے اور سیدھی دل میں اتر اتی ہے لیکن غزل موجودہ صدی یعنی اکیسویں صدی تک آتے آتے اپنے دامن کو اس قدر وسعت سے آشنا کر چکی ہے کہاس میں کوئی بھی بات کرنے میں مشکل نہیں ہے غزل کا ایک تازہ اور نیا مجموعہ نشاطِ غم میرے سامنے ہے میں اس پر بات کروں گا اور اس میں درج غزلوں کے حوالے سے بات کروں گا یہ مجموعہ کلام جدید لہجے کے منفرد شاعر اشرف جاوید کی غزلوں پر مشتمل ہے اشرف جاوید کے شعری سفر کا یہ چوتھا پڑائو ہے اور یہاں تک آتے آتے اس کے فنی فکری جذباتی اور احساساتی عنصر کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اس نے غزل کو روایتی موضوعات سے نکال کر ہمہ گیر اور آفاقی موضوعات سے وابستہ کر دیا ہے غزل میں ذات سے ہٹ کر بھی بات کی جاسکتی ہے اور عشق کو ایک بڑے کینوس پر بھی دیکھا جاسکتا ہے اور صحرائے خیال کو اور دشت حیات کو خاردار جھاڑیوں سے پاک کر کے ایک نئے گلشن کی بنیاد بھی رکھی جاسکتی ہے۔ نشاطِ غم، زندگی کی انہی مشکلاتاور ان مشکلات سے نبردآزما رہنے کا عمل ہے۔ اشرف جاوید نے غزل کے نقش و نگار میں نمایاں حد تک اضافہ کیاہے۔ اشرف جاوید نے غزل کو اپنے نواح سے اپنے خیالات سے اور اپنے گردوپیش میں ہونے والے واقعات سے نہ صرف جوڑ دیا ہے بلکہ اسے زندگی کی علامت کے طور پر اظہار کا وسیلہ بنایا ہے غزل جہاں ذاتی اظہار کا وسیلہ ہے وہاں اپنے معروض سے بھی بے خبر نہیںہے لفظ ہمارے دوست ہیں، ہم سے باتیں کرتے ہیں ہمارے روزمرہ دکھوں کے اظہار کا سبب بنتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہمیں ان لفظوں سے کس حد تک آشنائی ہے اور کس سطح پر ہم نے ان سے تعلق قائم کیاہوا ہے اور کس حد تک ہمیں ان میں پوشیدہ محبت کا ادراک ہے۔ اگر یہ رشتہ محض عامیانہ سطح پر قائم ہے تو لفظ شاعر سے روٹھ جاتے ہیں اگریہ تعلق جذباتی فکری اور احساساتی سطح پر قائم کر لیا جائے تو اس تعلق میں استحکام اور پختگی کی جو سطح سامنے آتی ہے وہاں شاعر ہر وہ بات کرنے پر قادر نظر آتا ہے جو وہ کرنا چاہتاہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ فرازسے اشرف جاوید تک غزل میں جو نمایاں تبدیلی آتی ہے اس نے غزل کو کس حد تک معنی آفرینی عطا کیہے او غزل اپنے ہونے کا جواز کس حد تک مہیا کر پائی ہے۔ نشاطِ غم میں شامل تمام غزلیں اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اشرف جاوید نے اظہار کے باطن میں یعنی غزل کے لہجے میں ایک تاثیر بھر دی ہے اور یہ تاثیر اس کے جذبات اور کیفیات کا قرینہ بھی ہے اور سلیقہ بھی۔ اشرف جوید وہ شاعر ہے جسے یہ بھی علم ہےکہ اسے کیا کہنا ہے اور کس طرح سےکہنا ہے بات کرنے کا ہنر اشرف جاوید کو خوب آتا ہے اور پھر اس کا کوئی شعر نہیں ہے جو یک رُخا ہو یا اس کی صرف ایک پرت یا ایک سطح ہو۔ میں یہاں صرف ایک شعر کی مثال دے کر اپنی بات کو آگے بڑھائوں گا۔

خود بدلتا نہیں، حالات بدل دیتا ہے

باتوں باتوں میں وہ ہر بات بدل دیتا ہے

مذکورہ بالا شعر ابتدائی طور پر یا پھر بادی النظر میں محبوب کے روایتی رویے کی غمازی کرتا نظر آتا ہے۔ لیکن ایک قدم آگے بڑھیں تو یہی شعر ہمارے میں بکھرے ہوئے کرداروں اور انسانی رویوں کا عکاس بھی دکھائی دیتا ہے۔ طاقت ور قوتیں اور حکمران طبقہ کس طرح سے عوام کو فریب میں مبتلا رکھتاہے اور کمزور لوگ محض مجبوریاں پھر جبری طاقتوں کے زیر تسلط نظر آتے ہیں یعنی صرف زبانی جمع خرچ کیا جاتاہے باتیں ہیں جن سے بہلاوے کا اہتمام کیا جاتا ہے عمل اور کردار بالکل الٹا نظر آتاہے یعنی اشرف جاوید نے ایک عالمگیر تضاد کو جس خوبصورتی اور ہنر مندی سے اظہار میں ڈھالا ہے اور جس مہارت سے ایک معمول کے معاشرتی رویے کا پول کھولا ہےا س کی تاثیر اور اس کے رنگ ڈھنگ اور اطوار معاصر شعرا سے یکسر مختلف دکھائی دیتاہے۔

کسی بھی فن پارے کو جانچنے اور سمجھنے کے لیے حقیقت فن اور حقیقت حالات تک آنا اشد ضروری ہوتا ہے۔ اشرف جاوید کی غزل روح میں اترنے کے لیے ہمیں اس کی شخصیت اس کی فنی دسترس اس کے شعری عناصر اور فکری لوازمات اور مصرع بنانے اور پھر دو مصرعوں کو شعر میں تجسیم کرنے کے ہنر تک آنا ہوگا۔ اشرف جاوید کی ایک فنی خوبی یہ بھی ہے کہ جن لفظوں کو باہم اتصال دے کر کوئی ترکیب بناتا ہے وہ ترکیب نہ صرف معنویت کی بلند سطح کو چھوتی ہے بلکہ ان تراکیب میں استعاراتی جھلک نمایاں حد تک دیکھی جاسکتی ہے۔ لفظ باہم مل کر کس طرح ترکیب میں ڈھلتے ہیں اور پھر تراکیب کس طرح استعاروں کا روپ دھار لیتی ہیں اس ہنر سے اکتساب کے لیے نشاط غم کی غزلیں پڑھنا ہوں گی میں یہاں اس کی چند خوبصورت تراکیب کا حوالہ ضروری خیال کرتاہوں مثال کے طور پر خواب کا شل ہونا کیسہ لذت پارس سے تراشیدہ بدن درد کی جڑیں دید کا سکہ کاسہ چشم اور درید سانس یہ ایسی تراکیب ہیں جو کم از کم میری نظر سے پہلے گزریں نہیں اشرف جاوید نے اس لحاظ سے بھی اردو شاعری کو بالخصوص غزل کو نئی تشکیلات سے آراستہ کیاہے اس کے اشعار میں بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس کی غزلوں میں زندگی کے ساتھ اور اپنی زمین کے ساتھ وابستگی اور نظریہ عشق کے ساتھ الحاق اتنا مستحکم ہے کہ ان تینوں باتوں کو اس کی شخصیت سے الگ کر کے دیکھا ہی نہیں جاسکتا۔یہں ایک بات عرض کرتا چلوںکہ میں نے جو اشرف جاوید کے نظریہ عشق کا ذکر کیا ہے تو اس کے وہگھسے پٹے معنی ہر گز نہیں ہیں جنہیں عام حالات میں لیا جاتاہے یا جنہیں عمول کے رویے پر منتہج کیا جاتا ہے اشرف جاوید ترقی پسند فکر کا شاعر ہے اس نے عام سطح سے اوپر اٹھ کر عشق کو اپنی غزل کا حوالہ بنایا ہے اور یہی بات اس کا نظریہ فن بھی ہے اور نظریہ غزل بھی مجھے اس کی ایک تازہ غزل سننے کا اتفاق ہوا میں اس غزل کے آخری شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ یہ شعری مغالطہ بھی اشرف جاوید نے خود ہی حل کر دیاہے۔

عشق میراث بھیہے مرا ورثہ بھی

اور لے جائیں گے آگے اسے آنے والے!

نشاطِ غم محسوسات اور شعری کیفیات کو جس سطح پر چھو رہی ہے اسے صرف اشرف جاوید کی غزل پڑھ کر ہی محسوس کیا جاسکتاہے۔ یہ دیدہ زیب مجموعہ کلام یو ایم ٹی پریس لاہور نے بہت اہتمام کے ساتھ شائع کیاہے اور اس کا خوبصورت سرورق مصور ریاض احمد نے بنایاہے۔

Leave a comment